دینی مدارس کی جہدِمسلسل اور درپیش چیلنجز

مولانازاہدالراشدی

(دعوہ اکیڈمی اسلام آباد سے الشریعہ اکیڈمی گوجرانوالہ آنے والے علماء کرام کے وفد سے گفتگو)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ہم نے الشریعہ اکیڈمی کے نام سے یہ ٹھکانہ بنا رکھا ہے جس میں چھوٹے موٹے کام کرتے رہتے ہیں۔ ہمارا بنیادی کام یہ ہے کہ دینی حلقوں میں آج کے عصری تقاضوں کا احساس اجاگر کرنا اور جہاں تک ہوسکے بریفنگ مہیا کرنا۔ آج کے عصری تقاضے کیا ہیں، دینی حوالے سے آج کی ہماری ضروریات کیا ہیں اور ہم نے ان کو کیسے پورا کرنا ہے؟ ان تقاضوں کی نشاندہی، احساس اور ہلکی پھلکی بریفنگ ہم نے اپنے کام کو اس دائرے میں محدود کر رکھا ہے۔ میں آج کی ضروریات اور تقاضوں کے حوالے سے دو تین باتیں عرض کرنا چاہوں گا۔ آپ ماشاء اللہ علماء کرام ہیں اور بڑے ادارہ کے علماء کرام ہیں۔ جہاں سے آپ کا تعلق ہے وہ علاقائی تناظر، قومی تناظر اور دینی تناظر میں بڑا اہم، بڑا نازک اور حساس خطہ ہے۔ اس لیے جو آج کے تقاضے اور ضروریات ہیں ان سے ہم سب کا آگاہ ہونا ضروری ہے، لیکن آپ حضرات کے لیے زیادہ ضروری ہے۔

آج اس وقت ہم دنیا میں جس فکری کشمکش سے دوچار ہیں یہ مختلف نوع کی ہے۔ عالم اسلام اور عالم کفر، پھر عالم کفر کی اپنی ترجیحات ہیں مغرب اور مشرق لیکن اس وقت جو بات ہم سب کی زبان پر ہے کہ مغرب اور اسلام کی کشمکش، اس کشمکش کے بہت سے دائرے ہیں لیکن جو بات زبان زد عوام ہے اور جو ہم میں سے تقریباً ہر پڑھا لکھا اور مسائل کو سوچنے والا آدمی کہتا ہے کہ اسلام اور مغرب کی کشمکش ہے۔ اس کشمکش کو ہمیں سمجھنا چاہیے کہ یہ کشمکش کیا ہے؟ اس کا ایک دائرہ تو سیاسی ہے کہ مغرب کی سیاسی اجارہ داری نہیں بلکہ جکڑ بندی ہے۔ عالم اسلام اس وقت مغرب کے مکمل سیاسی شکنجے میں ہے۔

یہ بحث مستقل گفتگو کی متقاضی ہے لیکن میں آپ سے یہ بات عرض کرنا چاہوں گا کہ آج دنیا میں ساٹھ کے لگ بھگ مسلمان ملک شمار ہوتے ہیں۔ ہماری حکومتیں بھی ہیں لیکن کہیں بھی ہم اپنے فیصلے خود کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ دنیا کا کوئی خطہ ایسا نہیں ہے جہاں مسلمان ملک ہو، حکومت ہو اور پارلیمنٹ بھی ہو، سب کچھ ہو، لیکن وہ اپنے قومی فیصلے اپنی مرضی سے کر سکیں۔ مجھے تو اس زمین پر کوئی ایسا خطہ دکھائی نہیں دیتا کہ ہم اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہوں۔ سیاسی دباؤ ہے یا معاشی دباؤ ہے اور کچھ نہیں تو بین الاقوامی معاہدات ہیں جس کے حوالہ سے میں ایک بات یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ اس وقت ہم پر حکومتوں کی حکومت نہیں بلکہ بین الاقوامی معاہدات کی حکومت ہے۔ ہمارا جو بھی کوئی معاملہ ہوتا ہے کسی نہ کسی بین الاقوامی معاہدے سے ٹکراتا ہے اور ہم پسپا ہو جاتے ہیں۔ بیسیوں بین الاقوامی معاہدات ہیں سیاسی بھی، ثقافتی، تعلیمی اور قانونی بھی۔ آج دنیا میں حکومتیں تو بس نام کی حکومتیں ہیں، اصل حکومت ہم پر بین الاقوامی معاہدات کی ہے اور اگر ان معاہدات کے پیچھے کار فرما ایجنڈا دیکھیں تو یہودی پروٹوکول نظر آ جائے گا کہ حکومت کس کی ہے؟ ہم کوئی سیاسی فیصلہ کرتے ہیں تو کوئی نہ کوئی بین الاقوامی معاہدہ ہمارے سامنے آجاتا ہے۔ نفاذ شریعت کی بات کرتے ہیں، اپنی ثقافت کی بات کرتے ہیں، یا کوئی تعلیمی بات کرتے ہیں تو کوئی نہ کوئی بین الاقوامی معاہدہ ہمارے راستے کی رکاوٹ بن جاتا ہے۔ تمام اہم معاملات میں بین الاقوامی طور پر معاہدات کی حکومت ہے۔ ہماری حکومتیں ایک کارندے کی حیثیت رکھتی ہیں اس سے زیادہ کچھ نہیں۔

معاشی طور پر آپ صورتحال دیکھیں کہ معاشیات کے وسائل ہمارے پاس ہیں۔ تیل، معدنیات اور یورینیم ہمارے پاس ہے، لیکن اس کا کنٹرول کسی اور کے پاس ہے۔ ہمارے پاس کاغذ کے ٹکڑے یعنی نوٹ اور کرنسی ہیں اور اس کاغذ کے ٹکڑے کا کنٹرول بھی ورلڈ بینک کے پاس ہے کہ میری جیب میں ہزار کا نوٹ ہے، آج ہزار کا ہی ہے یا نو سا کا رہ گیا ہے؟ ہماری بے بسی کا حال یہ ہے کہ نوٹ میری جیب میں ہے لیکن اس کاغذی کرنسی کا کنٹرول میرے پاس نہیں ہے۔ یہ نو سو کا رہ گیا ہے یا گیارہ سو کا ہو گیا ہے، مجھے کچھ پتہ نہیں۔ میں تو جب مارکیٹ میں جاؤں گا تو پتہ چلے گا کہ یہ ہزار کا نہیں رہا۔ اسی طرح بہت سے معاشی وسائل ہمارے ہیں اور کنٹرول کسی اور کا ہے۔ دولت ہماری ہے لیکن کنٹرول کسی اور کا ہے۔ یہ ہماری معاشی صورتحال ہے۔

عسکری صورتحال بھی آپ دیکھ رہے ہیں۔ مجھے ایک عرب صحافی کا چبھتا ہوا جملہ نہیں بھولتا اس نے کہا کہ دنیا کے ایٹم بم اپنے ملکوں کی حفاظت کر رہے ہیں اور پاکستان اپنے ایٹم بم کی حفاظت کر رہا ہے۔ یعنی ہماری جکڑ بندی حال یہ ہے کہ ہم ایٹمی قوت ہیں لیکن ایٹمی قوت ہوتے ہوئے بھی ہماری بے بسی یہ ہے۔ مجھے تفصیل بتانے کی ضرورت نہیں، آپ کو نظر آ رہی ہے کہ ہماری بے بسی کی انتہا کیا ہے اور ہم کہاں کھڑے ہیں۔ یہ میں نے صرف حوالے کے لیے بات کی ہے، اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا کہ ہماری سیاسی جکڑ بندی اور معاشی جکڑ بندی کا حال کیا ہے۔ عسکری طور پر بھی ہم بے بس ہیں۔ اسلامی ممالک میں سب سے زیادہ عسکری قوت پاکستان ہے۔ ہمارا حال یہ ہے تو باقی غریب ملکوں کا کیا حال ہوگا ان کے پاس تو یہ کچھ بھی نہیں ہے۔

لیکن ایک بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ایک ہے فلسفے کی جنگ، ثقافت اور سولائزیشن کی جنگ، علمی اور فکری جنگ۔ اگر آج ہم دنیا میں دنیائے مغرب کے ساتھ یا دنیائے کفر کے ساتھ کسی شعبے میں برسر جنگ ہیں تو وہ صرف علمی اور ثقافتی جنگ ہے جہاں ہم ابھی تک سرنڈر نہیں ہوئے اور ان شاء اللہ نہیں ہوں گے۔ دو سو سال سے مغرب لگا ہوا ہے اپنا پورا زور لگا رہا ہے لیکن دنیا کے کسی خطے میں بعض مسلمان طبقات سرنڈر ہوئے ہوں گے، حکمران سرنڈر ہوئے ہوں گے لیکن مسلمان سوسائٹی کہیں بھی سرنڈر نہیں ہوئی اور نہیں ہوگی۔ طبقات ضرور سرنڈر ہوئے ہیں۔ ہماری جورولنگ کلاس ہے وہ مرعوب ہے لیکن جسے سوسائٹی کہتے ہیں، سوسائٹی ابھی تک قائم ہے۔ مصر میں چلے جائیں یا مراکش میں، انڈونیشیا میں چلے جائیں یا ملائشیا میں، نائیجیریا میں چلے جائیں یا تاشقند میں، جہاں بھی جا کر دیکھ لیں سوسائٹی ابھی تک دین کی بنیادوں پر کھڑی ہے، اسٹینڈ کررہی ہے اور سرنڈر ہونے کے لیے تیار نہیں ہے۔ یہ علمی اور فکری دنیا میں مغرب کی بڑی شکست ہے جس پر وہ تلملا رہے ہیں اور ان کی جھنجھلاہٹ نظر آتی ہے۔ دو سو سال میں انہوں نے ہمارے خاندانی نظام کو تباہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی، ہماری علمی بنیادوں کو تباہ کرنے کی کوشش کی، ہمارے فکری ورثے کو تباہ کرنے کی کوشش کی۔ لیکن دو سو سال گزرنے کے باوجود وہ اپنے مشن میں کامیاب نہ ہو سکے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ وہ کچھ نہیں کر سکے، انہوں نے بہت کچھ کیا ہے، لیکن میں اساس کی بات کر رہا ہوں۔

میں جب مغرب والوں سے بات کرتا ہوں تو یہ بات کہتا ہوں کہ تم وقت ضائع کر رہے ہو اپنا بھی اور ہمارا بھی۔ تمہاری تمام تر کوششوں کے باوجود دنیا کا کوئی مسلمان کہیں کسی خطے میں بھی قرآن پاک سے تعلق توڑنے کے لیے تیار نہیں ہے دو حوالوں سے۔ (۱) آپ دنیا کے کسی خطے کے مسلمان سے کہیں کہ قرآن پاک نے یہ بات کہی ہے اور صحیح نہیں کہی تو وہ اس بات کو نہیں سنے گا۔ اس کو اصل بات کا پتا نہیں ہے، وہ ایک لفظ کا ترجمہ بھی نہیں جانتا، لیکن یہ بات کوئی مسلمان سننے کے لیے تیار نہیں ہو گا کہ قرآن پاک نے ایک بات کہی ہے اور صحیح نہیں کہی۔ (۲) اور دوسرا کوئی مسلمان قرآن پاک کی بے حرمتی کبھی بھی برداشت نہیں کرے گا۔ یہی صورتحال جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے ساتھ ہے۔ دنیا کے کسی خطے کے کسی مسلمان سے آپ یہ کہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات فرمائی تھی نعوذ باللہ وہ صحیح نہیں ثابت ہوئی تو کیا کوئی مسلمان یہ بات سنے گا؟ اس کو بات کا پتا نہیں ہے، لیکن وہ نہ روایت پوچھے گا، نہ سند پوچھے گا، نہ متن پوچھے گا اور نہ حوالہ پوچھے گا بس یہ جملہ وہ برداشت نہیں کرے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی بات کی ہے اور وہ صحیح نہیں ہے۔ اسی طرح کوئی مسلمان جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی برداشت نہیں کرے گا۔ چاہے اس نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پڑھی ہے یا نہیں، حضور کی حدیث جانتا ہے یا نہیں، سنت سے واقف ہے یا نہیں۔ جو مسلمان ہے وہ حضور نبی کریم علیہ السلام کی شان اقدس میں گستاخی کبھی برداشت نہیں کرے گا۔ جس کے دل میں ایمان ہے وہ یہ چیز برداشت نہیں کر سکتا۔ (جاری ہے)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *